اس مقالے میں مستنصر حسین تارڑ کے ناول ‘‘خس و خاشاک زمانے’’ پر مغرب کی مابعد جدیدیاتی تکنیک کے اثرات کا مطالعہ کیا گیا ہے۔ تارڑ نے اپنی ادبی زندگی کے دوسرے مرحلے میں ‘‘راکھ’’ اور ‘‘خس و خاشاک زمانے’’ جیسے ناول تخلیق کیے جن میں جدید ادبی ہیئت کا اثر نمایاں ہے۔ ان ناولوں میں تاریخی کردار بھی ہیں اور واقعات بھی۔ تاریخ کے تانے بانے جوڑ کر ریاست کے زوال کو اس مہارت کے ساتھ بیان کیا گیا ہےکہ مفلوک الحال قوم کی صحیح ترجمانی ہوگئی ہے۔ ‘‘خس و خاشاک زمانے’’ میں شناخت کی کثیر الجہتی کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔