پنجابی زبان و ادب کی ہزار سالہ روایت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ اس میں تحقیق اور تنقید کی طرف زیادہ توجہ دی جائے۔ تخلیقی سطح پر آغاز میں اس طرف معمولی دانش وروں نے توجہ دی اور یہ سلسلہ مقامی جامعات میں شروع ہوا جو اب تک جاری ہے۔ پنجابی میں تنقید کے آثار انگریزی شاعر اور نقاد ڈرائیڈن، ٹائن اور کروچے کے ہم عصر بالترتیب وارث شاہ، احمد یار، میاں محمد بخش اور منشی غلام حسین وغیرہ کے فن پاروں میں نمایاں ہیں۔ جب کہ قیام پاکستان کے بعد پنجابی تحقیق و تدوین کا آغاز ۱۹۵۳ء میں منظرِ عام پر آنے والی محمد سرور کی کتاب پنجابی ادب سے ہو گیا تھا، جس کے بعد متعدد کاوشیں سامنے آئیں۔ زیرِ نظر مضمون میں پنجابی تنقید کے حوالے سے پاکستان میں ہونے والے کاموں کا جائزہ لیا گیا ہے۔