مقالہ نگار: اسد،غلام شبیر وزیر آغا کی تنقید (ساختیات اور سائنس کے حوالے سے)

تخلیقی ادب : مجلہ
NA : جلد
11 : شمارہ
2014 : تاریخ اشاعت
شعبۂ اردو، نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد : ناشر
روبینہ شہناز : مدير
NA : نايب مدير
Visitors have accessed this post 37 times.

اُردو تنقید کے باب میں  وزیر آغا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ آج سے چوبیس سال پہلے شائع ہونے والی وزیر آغا کی کتاب"ساختیات اور سائنس" اپنے انداز نظر اور فکری زاویوں کے حوالے سے آج بھی تازہ دم نظر آتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وزیر آغا نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا انتہائی سلجھے ہوئے انداز میں اُٹھایا اور جو بھی رائے قائم کی اُس پر ہمیشہ قائم رہے۔ انھوں نے ہمیشہ ادب کے آفاقی پہلوؤں پر زور دیا اور ادب سے آفاقی ادب تخلیق کرنے کی اُمید رکھی۔ سب سے بڑی بات اُن کا اسلوب تنقید ہے جو ہر قسم کی اعادیت و محدودیت سے پاک، شستہ، رواں اور سہل ہے۔ ادب کی تفہیم سے ترسیل کا سلیقہ کوئی اُن سے سیکھے۔ انھوں نے کبھی بھی کسی تحریک یا رجحان کی پاس داری نہیں کی بلکہ ہمیشہ تنقید، تخلیق، تحقیق کے ضمن میں سچا اور کھرا اور ادب کے تقاضوں کے مطابق مؤقف اختیار کیا جس پر تادمِ آخر قائم رہے۔ ماحول سے بے نیاز ہو کر انھوں نے جو کار ہاے نمایاں انجام دیے کل کے دشمن آج اُن کے معترف نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ "ساختیات اور سائنس"جتنی کل معتبر اور مقبول تھی اتنی ہی آج بھی اہم ہے اور نظری و عملی تنقید کا بے مثال نمونہ ہے۔ اس مقالے میں وزیر آغا نے تنقیدی حوالے سے جو کام کیا ہے اُن کی مشہور کتاب"ساختیات اور سائنس"کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا مطالعہ کیا گیا ہے۔