زیرِ نظر مقالے میں علامہ شبلی نعمانی کے موضوعات کے تنوع اور ہمہ گیریت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ابتداً ان کے عربی رسائل منظر عام پر آئے۔ پھر انھوں نے "صبح اُمید" کے نام سے مثنوی اور مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا۔ بعد ازیں الجزیہ کے نام سے رسالہ جاری کیا اور المامون، الفاروق، سیرت النعمان اور الغزالی تحریر کیں، جن میں سے مؤخرالذکر سوانح عمری کے ساتھ ساتھ علمِ کلام کے سلسلے میں شبلی کے کاموں کی ابتدائی کڑی ہے۔ مقالہ نگار نے شبلی کی تصانیف کا جائزہ ان کے ذہنی رجحان کی تبدیلی کے تناظر میں پیش کیا ہے۔