اس مقالے میں ڈپٹی نذیر احمد کے ناول "توبۃالنصوح " (۱۸۶۸ء) کا مطالعہ مابعد نوآبادیاتی تناظر میں کیا گیا ہے۔ نذیر احمد کے ابتدائی تین ناول ("مراة العروس"،" بنات النعش" اور "توبۃ النصوح") اُس انعامی ادب کے اعلان کے نتیجے میں لکھے گئے جو الٰہ آباد حکومت نے ۱۸۶۸ء میں کیا تھا۔ اس اعلان کا مقصد شمالی ہندوستان کی دیسی زبانوں میں مفید ادب کی تخلیق کی حوصلہ افزائی تھا۔ "توبۃالنصوح" کوپہلا انعام ملا۔ اس مقالے میں "توبۃالنصوح" کے مندرجات، کہانی اور اسلوب کا مطالعہ انیسویں صدی کے سیاسی وثقافتی پس منظر میں کیا گیا ہے۔ مقالہ نگار نے یہ دکھایا ہے کہ نذیر احمد کا پسندیدہ کردار نصوح ہے، مگر اس کا معتوب کردار کلیم بھی ناول کا طاقت ور کردار ہے۔ کلیم جدید انسان کی نمائندگی کرتا ہے۔جس کی آواز کو پدری یا ریاستی جبر دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ کلیم کی جدیدیت کی جڑ یں، مغرب میں نہیں، خوداس کی مقامی ادبی وثقافتی روایت میں ہیں۔