مقالہ نگار: میمن، محمد عمر مصری کی ڈلی یا سفید چینی: ترجمہ نگاری اور اس کے آزار

بنیاد : مجلہ
NA : جلد
5 : شمارہ
2014 : تاریخ اشاعت
گرمانی مرکزِ زبان و ادب، لاہور یونی ورسٹی آف مینجنٹ سائنسز، لاہور : ناشر
نجیبہ عارف : مدير
NA : نايب مدير
Visitors have accessed this post 32 times.

ترجمہ کرتے ہوئے ایک فن پارے کی تفہیم کے معاملے میں کسی خاص مفہوم پر اصرارکوئی بہت زیادہ معتبر اور صائب طریقہ کار نہیں۔ متن کوئی اَٹل اور جامد شے نہیں ہوتی جس کے بس ایک معنی ہوتے ہیں۔ چونکہ ہر معاشرہ اور نسل کسی فن پارے کا ترجمہ اولاًاپنے لیے کرتی ہے اس لیے اس کے مختلف ترجموں میں فرق اوراختلاف کا در آنا ناگزیر ہے۔ پھر یہ کہ ہر نسل کے ترجمہ نگار فن پارے کی تفہیم میں اپنی مخصوص شخصیت اور بصیرت سے کام لیتے ہیں اور اس کے اظہار میں اپنے وقت کی رائج زبان ضروری ترمیم کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ معنویت کی کثیر الجہتی کی ایک اور بڑی وجہ ہر اچھی نگارش میں ابہام کا عنصرہے۔ اگر سابقہ کسی ایسے متن سے پڑ جائے جو اجنبی ثقافت اور سبھاؤکا زائیدہ ہو تو ترجمہ نگار کا کام اور زیادہ مشقت طلب ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کہ مغربی زبانوں کے اردو تراجم پڑھنے میں ہمیشہ رواں نہیں ہو سکتے۔ جدید مغربی فکشن میں اوقاف بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اس کے علاوہ عادی زبان تو صرف انھیں اشیا کے بیان پر قادر ہے جو انسانی تجربے میں ایک ٹھوس حیثیت کی حامل ہوں لیکن تخلیقی نثر ٹھوس تجربے سے ماورا بھی ہوتی ہے۔لہٰذا ترجمہ نگاری کوئی آسان کام نہیں۔