اس مقالے میں مجید امجد کی ایک نظم ‘‘نہ کوئی سلطنتِ غم ہے نہ اقلیم طرب’’ کا تجزیاتی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ مقالہ نگار کے مطابق اس نظم کے پردے میں معنی در معنی جہانِ آرزو ہے جس کے ڈانڈے وقت، کائنات اور خدا کی تکوین میں انسان کی حیرت بھری تلاش سے جا ملتے ہیں۔ بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ رائگانی اور ملال کی نظم ہے لیکن اصل میں نظم ہر مرحلے پر ایک نئی حیرت، نئے انکشاف اور نئی جستجو کے دروا کرتی ہے۔