فنونِ لطیفہ کی دنیا میں تخیل کی اہمیت پر قدیم یونان سے عہدِ حاضر تک سوالات اُٹھائے جا رہے ہیں۔قوتِ متخیلہ ہی ایک عام انسان اور تخلیقی فن کار میں حدِ فاصل قائم کرتی ہے۔ تخیل کی اثرپذیری کے بارے میں سب سے پہلے افلاطون نے ایسے سوالات اُٹھائے جن کے جوابات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ انسانی فکر کا بنیادی ماخذ مادہ ہے لیکن تخیل اس میں وسعت لاکر خلق کی صلاحیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ اس مضمون میں مغربی فلسفیوں اور اُردو کے ناقدین کے ہاں تخیل کی حدود تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔مقالہ نگار کا خیال ہے کہ تخیل نسلِ انسانی کا ایک اجتماعی ورثہ ہے اور تخلیق کار اسے استعمال میں لا کر ہی معلوم سے نا معلوم کی طرف سفر کرتا ہے۔