ہر عظیم شاعر کے ہاں کچھ مخصوص استعارے اور کردار ایسے ہوتے ہیں جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی معنویت بدلتے رہتے ہیں اور ان پر روایتی معانی کا اطلاق متعلقہ شاعرکا مقام و مرتبہ گھٹا دیتاہے۔ غالب کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ان کے ہاں ’’قاتل’’ کے استعارے کو روایتی محبوب کا استعارہ سمجھا گیالیکن ان کی شاعری کا گہرامطالعہ قاری کو استعارہ ‘‘قاتل’’کے نت نئے معانی کے ذائقوں سے روشناس کراتاہے۔ زیرِ نظر مقالے میں غالب کے ہاں استعارہ قاتل کی نئی معنویت وضع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس سے مراد اس دور کا جابرانہ اور استحصال گر نظام بھی ہوسکتاہے۔ سامراجی قوتوں کا گھناؤنا روپ ہمیں اس استعارے میں نظر آتاہے۔ یہ استعارہ غالب کے عہد کی نفسیات کی پردہ دری بھی کرتاہے۔ یہ مقالہ موضوع کے ان تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالتاہے۔