علامہ محمد اقبال کے کلام میں افغانستان اور افغانوں کا ذکر جابجا ملتا ہے۔ انھیں اس قوم سے محبت تھی جس کی وجہ ان کی سخت کوشی اور دین و مذہب سے غیر معمولی تعلق ہے۔ امیر نادر شاہ سے بھی آپ کو ان کی دین داری اور انتظامی امور میں قابلیت کے سبب بڑی عقیدت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۲۹ء میں جب نادر شاہ افغانستان کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے لاہور کے راستے افغانستان گئے تو لاہور کے اسٹیشن پر اقبال نے ان کا استقبال کیا۔ جب نادر شاہ تخت پر جلوہ افروز ہوئے توانھوں نے ملک کی تعلیمی حالت کو درست کرنے کے لیے ہندوستان کی مقتدر شخصیات کو افغانستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی تاکہ افغانستان میں تعلیمی اصلاحات کا خاکہ تیار کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں سید سلیمان ندوی، علامہ اقبال اور سر راس مسعود کا انتخاب عمل میں لایا گیا اور ۱۹۳۳ء میں یہ سفر کیا گیا جس کا مفصل احوال اس مقالے کا موضوع ہے۔