"سب رس" اُردو ادب کی پہلی ادبی داستان ہے۔ اس کے مصنف کا نام ملاوجہی ہے۔ اس کے تقریباً ایک سو سال کے عرصے کی طویل خاموشی کے بعد شمالی ہند میں "قصہ مہر افروز و دلبر"منظر عام پر آئی۔ یہ داستان اُردو زبان میں سادگی اور لطافت کا ایک شاہ کار ہے یہ شمالی ہند میں نثری ادب کے ارتقا کو واضح طور پر پیش کرتی ہے۔ ‘‘قصہ مہرا فروز و دلبر’’ کی ادبی حیثیت اس کے پس منظر کے مقابلے میں شک و شبے سے بالاتر ہے۔ دراصل یہ ایک ایسی داستان ہے جس کو شمالی ہند میں اُردو داستان نگاری کا باب اول کہا جاسکتا ہے۔ اس کی زبان پر کھڑی بولی، ہندی اور فارسی کی چھاپ بھی نظر آتی ہے لیکن ہندی کے اثرات غالب ہیں۔ یہ ایساادبی چلن ہے جو محمد شاہی دور میں عام ہو رہا تھا اور زبان نئے اسلوب سے آشنا ہو رہی تھی۔ اس مقالے میں اس اُردو داستان کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے اور‘‘قصۂ مہر افروز دلبر’’ کا باریک بینی سے جائزہ پیش کیا گیا ہے۔