مقالہ نگار: ازہر، نبیلہ شعر شور انگیز: ایک مطالعہ

زبان و ادب : مجلہ
NA : جلد
19 : شمارہ
2016 : تاریخ اشاعت
شعبۂ اردو، گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، فیصل آباد : ناشر
شبیر احمد قادری : مدير
NA : نايب مدير
Visitors have accessed this post 41 times.

میر تقی میر کو جب بھی پڑھا جائے وہ ایک نئی شان سے ہمارے سامنے آتا ہے اور شاید  اسی وجہ سے انھیں ‘‘خداے سخن’’ کہا جاتا ہے۔ میرؔ کی یہ شان رنگ زمانہ کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہے اور ہر دور میں ایک نیا میر ؔہمارے سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ یوں ہر نسل اپنامیرؔ خود دریافت کرتی ہے۔ چناں چہ اردو ادب میں میر شناسی کی مستحکم روایت موجود ہونے کے باوجود یہ ضرورت تاحال موجود ہے کہ میر کو ازسر نو پڑھا اور سمجھا جائے۔ شمس الرحمان فاروقی کی شعر شور انگیز بھی میر شناسی کی روایت کی ایک مضبوط کڑی ہے جو ایک عظیم وضخیم منصوبے کی صورت میں چار جلدوں میں موجود ہے۔ فاروقی کے اس کارنامے کو علمی اور ادبی حلقوں میں بھی خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوئی اور انھیں ہندوستان کے سب سے بڑے ادبی ایوارڈ ‘‘سرسوتی سمان’’سے بھی سرفراز کیا گیا۔ زیرِ نظر مقالہ شمس الرحمان فاروقی کے اسی شاہ کار کا تنقیدی جائزہ پیش کرتا ہے۔