علی گڑھ اور سرسید سے شبلی کاتعلق 'دو جذبیت ' یعنی تحسین و تنقید اور کشش وگریز کا بیک وقت حامل تھا۔ ان کے دو جذبی رجحان کی جڑیں نو آبادیاتی صورت ِ حال میں ہیں۔ اس زمانے کے اکثر دانش وروں نے مغرب و یورپ کے ضمن میں تنقید وتحسین کے متصادم جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ‘دوجذبیت’ اپنی اصل میں نفسیاتی حالت ہے مگر یہ ثقافتی، ادبی و تنقیدی تصورات کی تشکیل وتعمیر اور تردید و اثبات پر اثرا نداز ہوتی ہے۔ اس مقالے میں شبلی کی تنقید کا جائزہ ‘دوجذبیت’ کے تناظر میں لیا گیا ہے اور مصنف کا مؤقف ہے کہ شبلی کے یہاں مغربی تنقید کے ضمن میں کشش وگریز اور قبول ورَد کارویہ بیک وقت نظر آتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اس طرح مغربی تنقید کی علمیات کو اجارہ دارانہ پوزیشن حاصل نہیں ہوپاتی۔