حالیؔ نے ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد زمانے کے مزاج کو سمجھ کرنہ صرف مضامین غزل میں تبدیلی کا نعرہ بلند کیا بل کہ خود بھی کلاسیکی مزاج کی قربانی دے کر جدید طرز کی غزل گوئی شروع کی۔یہیں سے عاشق کے انقلابی تصور کا آغاز ہوتا ہے جس نے نہ صرف ادب میں نمایاں تبدیلی سے ہمیں روشناس کرایا بل کہ پوری زندگی میں مقصدیت اور حرکت و عمل کا عنصر بھی شامل کر دیا۔ انھوں نے عشقیہ موشگافیاں ترک کر کے ذاتی تجربات اور حیات و کائنات کے مسائل کو موضوع بنایا اور اس طرح روایتی تصور عاشق میں انقلابی تبدیلی کا آغاز کیا۔ اس مقالے میں حالیؔ کے اسی تصور عاشق کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔