مقالہ نگار: ثاقب، محمد اقبال تحفۃ المنتظمین: شیخ سعدی شیرازی کے ملک اباقا خان کو لکھے گئے ایک اہم مکتوب کا تجزیاتی مطالعہ

تحقیق نامہ : مجلہ
NA : جلد
19 : شمارہ
2016 : تاریخ اشاعت
شعبۂ اردو، جی۔سی۔یونی ورسٹی، لاہور : ناشر
محمد ہارون قادر : مدير
NA : نايب مدير
Visitors have accessed this post 71 times.

مشرف الدین مصلح بن عبداللہ مقلب بہ سعدی شیرازی ساتویں صدی ہجری کے ایک نابغۂ روزگار شاعر اور ادیب تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیش تر حصہ سیر و سیاحت میں گزارنے کے بعد اپنے آبائی وطن شیراز میں سکونت اختیار کی۔ اب سعدی کے پاس علم و دانش اور مختلف اقوام و طبقات کے ساتھ زندگی گزارنے کا وسیع تجربہ موجود تھا جس کو بروے کار لاتے ہوئے انھوں نے بوستاناور گلستان پایہ تکمیل تک پہنچائی ۔اس کی بنا پر وہ نہ صرف معلم اخلاق کے لقب سے معروف ہوئے بل کہ اطراف و اکناف کے ملوک و امرا بھی ان کے سحر میں مبتلا ہو گئے۔ اسی شہرت کے سبب ہلاکو خان کے بیٹے اباقاخان نے بھی اپنی تخت نشینی کے اوائل میں ہی سعدی کو ایک مراسلہ بھجوایا جس میں ان سے نصیحت اور تربیت کی خواہش ظاہر کی۔ سعدی نے جوابی مکتوب میں ان کی خواہش کو پورا کیا۔ زیرِ نظر مقالے میں سعدی کے اسی مکتوب کے مطالب پر بحث کرتے ہوئے اس کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔